زُبانِ شِیرٰیں
سارے جہاں میں دھوم ہماری زُباں کی ہے
6.17.2007
پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ سب ایک باہوش اور باعمل انسان کے لیے بہت اذیت ناک ہے۔ میں نو سال کے عرصہ کے بعد وطن واپس ٓایا تھا مگر فوجی سیاست اور قایدین حماد رضا کا انجام دیکھ کر اپنے عزیز ملک کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ دوستوں نے کہا کے غیر ملک میں تم دوسرے درجے کے شہری ہو گے۔ میں نے کہا بھُی وھاں دوسرا درجہ ہی بھلا پاکستان میں تو ھم چوتھے درجے کے شہری ہیں۔ پہلا درجہ فوج کا، دوسرا سیاستدانوں کا، تیسرا افسروں کا، اورچوتھا ھم عوام کا۔ یہ وردی اور پاکستان تمہیں مبارک ہو خوب لوٹ کر کہاو۔
3.29.2007
یہ مُلاؤں کی بستی ہے
یہ مُلاؤں کی بستی ہے
جسِے چاہیں کہدیں کافر ہے
جسِے چاہیں کہدیں مُرتد ہے
یہ بنِا جَرح اور بِنِا گواہی
جسِے چاہیں کریں سَنگسار
مُلاؤں کی اِس بستی میں
کوئی لال ہے، کوئی پیلی ہے
ہے کالی اور کوئی نیلی ہے
جو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہے
وہ کل نہیں بس آج بنی ہے
اس بستی کی ہر نُکڑ پے
ہے بَارِ زندگی گراں، اور
موت کی بازی سستی ہے
یہ مُلاؤں کی بستی ہے
مارچ ٢٩، ٢٠٠٧
جسِے چاہیں کہدیں کافر ہے
جسِے چاہیں کہدیں مُرتد ہے
یہ بنِا جَرح اور بِنِا گواہی
جسِے چاہیں کریں سَنگسار
مُلاؤں کی اِس بستی میں
کوئی لال ہے، کوئی پیلی ہے
ہے کالی اور کوئی نیلی ہے
جو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہے
وہ کل نہیں بس آج بنی ہے
اس بستی کی ہر نُکڑ پے
ہے بَارِ زندگی گراں، اور
موت کی بازی سستی ہے
یہ مُلاؤں کی بستی ہے
3.24.2007
3.17.2007
نعرہء حق
بہت عرصے بعد جذبوں کو زباں دی ہے وہ بھی فیض کی یاد میں۔ آجکل فیض بہت یاد آئے اور آپ اِس کی وجہ پاکستان کے حالات کے تناظر میں اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہیں کہ آخر کار ہم سے خاموش نہ رہا گیا۔
نعرہء حق
جیم جنجوعہ
کیا ردیف و قافیہ
کیا آدابِ نظم و نثر
کیا اوزان اور کیا بحر
ھو کیسے پابندیء سُخن
سیاہ دورِ غلامی میں
چھن جاتی ہے سَمع و بَصر
نعرہء حق
جیم جنجوعہ
کیا ردیف و قافیہ
کیا آدابِ نظم و نثر
کیا اوزان اور کیا بحر
ھو کیسے پابندیء سُخن
سیاہ دورِ غلامی میں
چھن جاتی ہے سَمع و بَصر
وہ خاکی ہیں یا آہنی ہیں
کیا غرض ہمیں تجرید سے
ہم کو تو بس غرض ہے
عہدِ وفا کی تجدید سے
یہ آدھ کِھلی جمھوریت
اور سیاستِ دیر و حرم
زندہ قوموں کے زوال کی
کر رہی ہے داستان رقم
ہے جو مشروط آزادی
دانشوری کی موت ہے
خداوند کے عذاب کی
یہ ایک صورت اور ہے
لگا کے ہونٹوں پہ قدغن
وہ سمجھے ہیں سکوت ہے
محکوموں کی آہوں سے
جل اٹھتے ہیں چراغِ سَحر
لگا کے ہر سوچ پر پہرہ
سمجھتے ہیں کہ جمود ہے
یہی دھر کے فراعینوں کا
رہا ھر دور میں دستور ہے
سوچتے ہیں دبا لیں گے
وہ طاقتِ جمہور کو
اور پسِ زِنداں ڈالیں گے
اب ھر اِک بے قصور کو
ہے حکم ربِ جلالی کا
اُترے گا طوق غلامی کا
اور اب دور سُنہرا آئے گا
محکوموں کی شاہی کا
"ہم اہلِ صفا، مردودِ حرم"
بس چاہتے ہیں انصاف ہو
تجھ سے کہتے ہیں اے رب
گھر جمھوریت کا آباد ہو
اے رب ابرِ کرم کا برسادے
تو ہی اپنا جلوہ دکھلا دے
جو ہاتھ اُٹھے تیری خلقت پر
اُسے نشاں عبرت کا بنا دے
گَر نہ ملی جو برحق ہے
اذانِ جبریل و پیمبر ہے
پڑھ لو نوشتہء دیوار کو
ہم چھین کے لیں گے آزادی
مارچ17, 2007
1.10.2006
1.07.2006
کچھ کہانی سنیاسی باوا کی
آج شیخو صاحب کے بلاگ پر فائزر (Pfizer) کی جانب سے انڈیا میں ویاگرا (VIAGRA) کے متعارف کروانے کے بارے میں پڑھنے کو ملا۔ ان کی بلاگ پر لکھی پوسٹ کے مطابق دوا بنانے والے کمپنی فائزر نے سروے کیا ہے اور اندازہ لگایا ہے کہ ہندوستان کے تقریبا ساڑھے سات کروڑ مردوں میں قوت باہ کی کمی ہے۔ اس لحاظ سے انڈیا میں ویاگرا کو بہت ہی جلد مقبولیت حاصل ہونے کا امکان ہے۔
یہ پڑھ کر مجھے دو دلچسپ واقعات یاد آگئے۔پہلا تو یہ کہ جب VIAGRA دنیا میں متعارف ہوئی توفورا ہی پاکستان میں اسوقت کی حکمران پارٹی کے ممبرانِ قومی اسمبلی اس دوا کو پاکستان میں متعارف کرانے کے لئے حکومتی سطح پر کوشاں ہو گئے۔ اب مجھے نہیں معلوم کے اپنے تیئں اُن کی مشینری واقعتا“ اتنی ہی ناکارہ تھی کہ انہیں اِس دوا کی اشد ضرورت پڑگئی یا وہ عوام کی فلاح کے لئے اس کام میں بھرپور دلچسپی کا مظاھرہ کر رہے تھے۔ حضرتِ ْجْ کا خیال ہے کہ اس کے بین عوام کی امنگوں سے زیادہ لذتِ شہوانی کی تابانی اور ضوفشانی کا عنصر کارفرما تھا۔
اب دوسرا واقع بھی سنیئے جو اگرچہ مزاح سے بھرپور ہے مگر بحثیتِ قوم ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ ١٩٩٢ کے اواخر کی بات ہے۔ ابھی مجھے گورنمنٹ کالج لاھور (GC) سے ایم اے معاشیات کا قطعی (Final) امتحان دیئے دس ماہ کا عرص گزرا تھا، کہ میں جی سی میں معاشیات کے شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر خالد آفتاب (حالیہ رئیسِ دانشگاہ -یعنی وائس چانسلر) کے توسعت سے پنجاب کے چھوٹے صنعتی اداروں(Punjab Small Industries Corporation) کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ تیار کرنے کے لئے متعین ہوا۔ یہ کام عالمی ادارہ برائے محنت کشا(International Labor Organization, Geneva) کے تعاون سے جناب عمر اصغرخان صاحب (اللہ ان کی مغفرت کرے) کے تحقیقی ادارے (SEBCON) کو ملا تھا۔ اس کام کے لئے میں اپنی نگرانی میں تحقیق کاروں کی ایک جماعت لئے لاھور سے ڈیرہ غازی خان تک پھیلے چھوٹے صنعتی اداروں کے جائزے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ ابھی ہم لاہور، گوجرانوالہ، اور شیخوپورہ سے ہوتے ہوئے فیصل آباد کے صنعتی اداروں تک پہنچے تھے کے ہمیں اطلاع دی گئی کہ (ILO) کے ایک صاحب جرمنی سے ہماری کارکردگی جانچنے کے لئے تشریف لا رہے ہیں۔ چنانچے ہم واپس لاہور آئے اور جرمن تحقیق کار مسٹر فرینک (Frank) کو لئے پھر چل کھڑے ہوئے۔ فرینک صاحب کے ذمے یہ کام تھا کہ ہم تحقیق کاروں کی خوب چھان پھٹک کریں اور سب اچھا ہے کی رپورٹ (ILO) سرکار کو دیں۔ فرینک صاحب نے ہمارے ساتھ تین دن اور چار راتیں گزاریں اور لاھور سے لے کر ٹوبہ ٹیک سنگھ (جس کے حوالے منٹو صاحب کا افسانہ بھی ہے) تک کا سفر کیا۔ راستے میں ایک مقام پر فرینک نے سڑک کے کنارے ایک چار دیواری کی طرف اشارہ کیا اور بولا۔
یہ پڑھ کر مجھے دو دلچسپ واقعات یاد آگئے۔پہلا تو یہ کہ جب VIAGRA دنیا میں متعارف ہوئی توفورا ہی پاکستان میں اسوقت کی حکمران پارٹی کے ممبرانِ قومی اسمبلی اس دوا کو پاکستان میں متعارف کرانے کے لئے حکومتی سطح پر کوشاں ہو گئے۔ اب مجھے نہیں معلوم کے اپنے تیئں اُن کی مشینری واقعتا“ اتنی ہی ناکارہ تھی کہ انہیں اِس دوا کی اشد ضرورت پڑگئی یا وہ عوام کی فلاح کے لئے اس کام میں بھرپور دلچسپی کا مظاھرہ کر رہے تھے۔ حضرتِ ْجْ کا خیال ہے کہ اس کے بین عوام کی امنگوں سے زیادہ لذتِ شہوانی کی تابانی اور ضوفشانی کا عنصر کارفرما تھا۔
اب دوسرا واقع بھی سنیئے جو اگرچہ مزاح سے بھرپور ہے مگر بحثیتِ قوم ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ ١٩٩٢ کے اواخر کی بات ہے۔ ابھی مجھے گورنمنٹ کالج لاھور (GC) سے ایم اے معاشیات کا قطعی (Final) امتحان دیئے دس ماہ کا عرص گزرا تھا، کہ میں جی سی میں معاشیات کے شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر خالد آفتاب (حالیہ رئیسِ دانشگاہ -یعنی وائس چانسلر) کے توسعت سے پنجاب کے چھوٹے صنعتی اداروں(Punjab Small Industries Corporation) کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ تیار کرنے کے لئے متعین ہوا۔ یہ کام عالمی ادارہ برائے محنت کشا(International Labor Organization, Geneva) کے تعاون سے جناب عمر اصغرخان صاحب (اللہ ان کی مغفرت کرے) کے تحقیقی ادارے (SEBCON) کو ملا تھا۔ اس کام کے لئے میں اپنی نگرانی میں تحقیق کاروں کی ایک جماعت لئے لاھور سے ڈیرہ غازی خان تک پھیلے چھوٹے صنعتی اداروں کے جائزے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ ابھی ہم لاہور، گوجرانوالہ، اور شیخوپورہ سے ہوتے ہوئے فیصل آباد کے صنعتی اداروں تک پہنچے تھے کے ہمیں اطلاع دی گئی کہ (ILO) کے ایک صاحب جرمنی سے ہماری کارکردگی جانچنے کے لئے تشریف لا رہے ہیں۔ چنانچے ہم واپس لاہور آئے اور جرمن تحقیق کار مسٹر فرینک (Frank) کو لئے پھر چل کھڑے ہوئے۔ فرینک صاحب کے ذمے یہ کام تھا کہ ہم تحقیق کاروں کی خوب چھان پھٹک کریں اور سب اچھا ہے کی رپورٹ (ILO) سرکار کو دیں۔ فرینک صاحب نے ہمارے ساتھ تین دن اور چار راتیں گزاریں اور لاھور سے لے کر ٹوبہ ٹیک سنگھ (جس کے حوالے منٹو صاحب کا افسانہ بھی ہے) تک کا سفر کیا۔ راستے میں ایک مقام پر فرینک نے سڑک کے کنارے ایک چار دیواری کی طرف اشارہ کیا اور بولا۔
Do you know what is written on these walls? We have travelled almost more than 200 miles so far through different villages, towns, and cities but it seems to me that same thing is written on these walls from Lahore upto here. I believe it is an advertisement and it must be something very special because it appears to me that same script is written again and again.
ہماری شامت اعمال دیکھئے ہم نے بلا سوچے سمجھے سینہ ٹھونک کر کہا؛
Yes! you are right Mr. Frank, It is the same advertisment again and again.
Must be something very popular... what does it mean Frank asked curiously
ہمارے ہمراہیوں نے عین اس موقع پر ہمیں کہنی سے ٹھونکا لگایا جسکا مطلب یھ تھا کہ بات گول کر جاؤ۔ لیکن ہم کہاں ٹلنے والے تھے۔ چنانچہ فورا“ اپنی انگریزی کی قابلیت جھاڑنے کی خاطر نوشتہَ دیوار کا بعین رواں ترجمہ کر ڈالا۔۔۔
It says that if you are impotent or have sexual and marital troubles do not hesitate come straight to hundered year old Sunaisee Bawa who has cure for everything.
یہ سننا تھا کہ فرینک کا قہقہہ چھوٹ گیا۔ اور وہ ہنستا ہی چلا گیا۔ پہلے تو ہم بہت خوش ہوئے کہ اسے ہمارا ترجمہ پسند آیا ہے۔ لیکن جب اس کی ھنسی کسی طرح نہ تھمی تو ہمیں شک گزرا کے معاملہ گڑبڑ ہو گیا ہے۔ ہم نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔۔۔
What's Wrong man? I asked...
Frank paused his laughter and responded....I have seen this Ad in Rawalpindi as well .... the way this Ad is splattered across the walls from Lahore to Faisalabad it seems to me that whole Pakistani Nation is impotent. After saying this his pause bursted into another laughter.
یہ سننا تھا کہ ہم پہ گھڑوں پانی پڑ گیا اور اب کی بار ہمارے ہمراہیوں نے قہقہہ لگایا اور کہا اور ترجمہ کر کہ بتاؤ ۔۔۔سن لیا ساری قوم ہی نامرد قرار ہو گئی ہے۔۔۔۔۔!
خیر امریکہ میں آنے کا یہ فائدہ تھا کہ جنسی تعلیم عام ہے اور کوئی چیز چھپا کر نہیں پڑھنی پڑتی۔ اگر کوئی چیز باعثِ شرم ہے تو وہ لاعلمی ہے۔ میں نے باقائدہ اس معاملے پر تفصیل سے پڑھا اور معلوم ہوا کہ قوت باہ کا مسئلہ نفسیاتی زیادہ اور طبعی کم ہے۔ اور یہ بات ہمارے مشرقی معاشرے میں خاص طور پر صادق آتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اسلامی روح کے حوالے سے جو باتیں والدین کے ذریعہ اولاد تک پہنچنی چاہیں وہ اناڑی دوستوں، اشتہاروں، اور تھڑے کی مفحلوں سے نوجوانوں تک پہنچتی ہیں۔ اور بلاشبہ پاکستان میں کئی نوجوانوں کو شادی سے پہلے حبِ خاص اور طلائے مغلظ استعمال کرتے دیکھا اور سنا ہے۔ آج بھی فرینک کا جواب سوچتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ سنیاسی باوا سے لے کر فائزر (Pfizer) تک سبھی نے سادہ لوح عوام کو بےوقوف بنایا ہے۔ اور ناتجربہ کار نوجوان سب سے زیادہ ان کے ہاتھوں چڑھتے ہیں۔۔۔۔۔ ارے بھائی سبزی کھاؤ، ورزش کرو، اور دماغ تازہ رکھو۔۔۔ تو باقی سب ٹھیک ہے۔
سنیاسی باوا حصہ دوئم
شیخو صاحب کے تبصرے کے جواب میں اضافہ کر رہا ہوں۔
تبصرہ: ۔ویسے ایک بات ہے ذہنی بیماری تو اپنی جگہ ہے مگر کچھ لوگ واقع میں ٹائیں ٹائیں فش ہوتے ہیں۔شائد کہ بچپن کی غلطیوں کی وجہ سے ،ان کے لئے ویاگرا بہت ضروری ہے۔
ارے شیخو بھائی یہی بات تو میں سمجھانا چاہ رہا ہوں۔ اب بات چل ہی نکلی ہے تو کوشش کروں گا کہ اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے علمی مقصد پورا کروں۔ بچپن کی غلطی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ جس چیز کو بچپن کی غلطی کہہ کر عطائی حضرات نوجوانوں کو ذہنی مریض بناتے ہیں اسی چیز کو مغرب میں صحت مند رحجان قرار دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس مقصد کے لئے لوگ ویاگرا استعمال کرتے ہیں وہ مقصد بعض اعضائے رئیسہ کی ورزش سے پورا ہو سکتا ہے۔ ہمارے یہاں اعضائے رئیسہ کی ورزش کے حوالے کئے جانے والے بعض مخصوص کاموں کو بچپن کی نادانی کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ویاگرا کو سرعت کے سدباب کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کو پاکستان میں عطائی اور حکما سرعت کا باعث بتاتے ہیں یہاں اس کو سرعت کا قدرتی علاج گردانا جاتا ہے۔ ایسی ورزشوں سے انسان بدن میں اٹھنے والی کیفیات اور بہجت آفرینی کو نہیں دبا سکتا اس لئے ہمارے یہاں ان چیزوں کو بے راہ روی کا آغاز خیال کرتے ہوئے برا سمجھتے ہیں۔ جبکہ مغرب میں ماہر نفسیات کا خیال ہے کہ اعضائے رئیسہ کی مخصوص ورزشوں کے دوران اگر انسان اپنی بہجت آفرینی کو کنٹرول کر پائے اور طول دے تو وہ قدرتی طریقے سے وہی فوائد حاصل کر سکتا ہے جو لوگ طبی طریقے سے حاصل کرتے ہیں۔ اور قدرتی طریقہ علاج کی نتائج زیادہ دیرپا ہیں۔ آپ نے سنا ہو گا کہ اکثر لوگ ویاگرا کے استعمال کے بعد اپنے زوجی فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے دل کی دھڑکن بند ہونے کی سبب ہلاک ہو گئے۔ ایسی دوا کا کیا فائدہ جس کے مزا لینے سے پہلے انسان مزے کے احساس سے مبرا ہو جائے۔ ہاں اگر ویاگرا کے استعمال سے بدفعل و بدعنوان سیاستدانوں سے چھٹکارا مل سکتا ہے تو بڑے شوق سے اسے متعارف کرایئے بلکہ ڈاکٹروں کے ہاں تحریک چلائیے کہ وہ زور و شور سے یہ دوا بد عنوان سیاستدانوں کو تجویز کریں بلکہ مفت تجویز کریں (خیر سیاستدان تو ویسے بھی عوام کے ٹیکس پر پلتے ہیں)۔ ہاں یہ ہے کے اگر انسان صرف منتہائے شوق و لذت میں پڑ جائے تو بے راہ روی کا خطرہ رہتا ہے اسی لئے ہمارے معاشرے میں ان چیزوں پر بحث نہیں کی جاتی۔ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں تو Kegel کے نام سے ورزش کے بارے میں دیکھئے۔
1.03.2006
Technoratiٹیکنورتی
ابھی ابھی میں نے Technorati میں زبانِ شیریں کے لئے مندرجہ ذیل Tags کا اندراج کیا ہے۔ آپ لوگ بھی کیجئے تاکہ اردو بلاگز کے ٹیگ سب سے نمایاں ہوں۔
MIT Media Lab: $100 Laptop آج کی تازہ خبر
اور آج کی تازہ خبر واقعی شاندار ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہماری حکومت اس سے کیسے فائدہ اُٹھاتی ہے۔۔ حد تو یہ ہے کہ اردو کے انٹرنیٹ پر فروغ کے لئے عملی کاوشیں نجی اداروں اور افراد کے ذریعے ہو رہی ہیں۔ لگتا ہے تعلیم کے فروغ کا عمل اور اردو Laptop کا ارتقا اور اجرا و استعمال جیسے دقیق کام بھی عوام کو نجی اداروں کے ذریعے کرنا پڑیں گےا۔ MIT Media Lab: $100 Laptop: "The MIT Media Lab has launched a new research initiative to develop a $100 laptop-a technology that could revolutionize how we educate the world's children. To achieve this goal, a new, non-profit association, One Laptop per Child (OLPC), has been created. The initiative was first announced by Nicholas Negroponte, Lab chairman and
co-founder, at the World Economic Forum at Davos, Switzerland in January 2005."
12.31.2005
چمبڑ جا
یہ لطیفہ پنجابی کا ہے اور پنجابی میں ہی خوب لگتا ہے۔ ترجمہ اس کا مزا کِرکَرا کر دا گا۔
ایک بندے دا ویاہ نہیں ہوندا تے او "چھڑیاں دی اَگ نہ بلے" وی سُن سُن کے تنگ آ جاندا اے۔ آخرکار اپنے ہتھ اپنی حیاتی مکاؤن دا فیصلہ کر کے بیلے (جنگل) وچ نکل جاندا اے تانکہ اُنھوں کوئی بھگیاڑ ڈپھ لوَے۔ اپنے غم وچ غلطاں سِر نیوڑے ٹُریا جاندا تے اِک اُجاڑ جگہ انھوں اِک چُڑیل لبھدی اِے۔ او فیر وی لگا جاندا اے۔ چڑیل بڑی پرشان ہوندی اے تے چھڑاپی مار کے اوہدے رستے وچ آن کھلوندی اے۔ آکھدی اے۔۔ہو ہا ہا ہا ۔۔۔تینوں جابدا نئیں۔۔ میں چڑیل آں!
بندہ نجر اُتاں کر کے تکدا اے تے کھندا اے۔۔ ویکھنی کی ایں۔ آ فیر چمبڑ جا
ایک بندے دا ویاہ نہیں ہوندا تے او "چھڑیاں دی اَگ نہ بلے" وی سُن سُن کے تنگ آ جاندا اے۔ آخرکار اپنے ہتھ اپنی حیاتی مکاؤن دا فیصلہ کر کے بیلے (جنگل) وچ نکل جاندا اے تانکہ اُنھوں کوئی بھگیاڑ ڈپھ لوَے۔ اپنے غم وچ غلطاں سِر نیوڑے ٹُریا جاندا تے اِک اُجاڑ جگہ انھوں اِک چُڑیل لبھدی اِے۔ او فیر وی لگا جاندا اے۔ چڑیل بڑی پرشان ہوندی اے تے چھڑاپی مار کے اوہدے رستے وچ آن کھلوندی اے۔ آکھدی اے۔۔ہو ہا ہا ہا ۔۔۔تینوں جابدا نئیں۔۔ میں چڑیل آں!
بندہ نجر اُتاں کر کے تکدا اے تے کھندا اے۔۔ ویکھنی کی ایں۔ آ فیر چمبڑ جا
12.30.2005
نیا ٹیمپلٹ
یہ لیجئے جناب آخرکار ہم نے نیا ٹیمپلٹ ڈیزائن کر ہی ڈالا۔ بتائیے کیسا لگا۔ اب اسے شوق سے Firefox میں کھولئے۔سوچا تو یہ تھا کہ ٹیمپلٹ پر ایک ماہ تک بالکل کام نہیں کروں گا۔ لیکن پروگرامنگ ایسا نشہ ہے کہ چھٹتی نہیں کافر منہ سے لگی ہوئی۔ تیسری دفعہ ایک ایک بخیئہ دوبارہ اُدھیڑا۔ سچ کہا ہے یک نہ شد دو شد۔ مسلسل ١٦ گھنٹے بیٹھا رہا اور آخرکار محنت رنگ لائی۔ اگرچہ بہت سے اضافے ضائع ہو گئے ہیں اور اُن پر کام پھر کی اور وقت کروں گا۔ تاہم Firefox کے چور کو بھی پکڑ لیا ہے۔ اور وہ یہ رہا ( !, ! )۔ دیکھنے میں یہ بالکل ایک سے ہیں مگر اِن میں سے ایک اردو کے صعوتی کلید تختے سے لگایا ہے اور دوسرا انگریزی کے۔ IE ان دونوں میں کوئی تمیز نہیں کرتا جب کہ Firefox ان سے الگ الگ سلوک کرتا ہے۔ ہوا یہ کہ پروگرامنگ کے دوران اردو کی عبارت ٹائپ کرتے ہوئے انجانے میں ایک آدھ جگہ اسے (!) اردو کے کلیدی تختے سے لگا دیا جبکہ باقی تمام انگریزی کے کلیدی تختے سے لگے تھے۔ لہذا اردو کے (!) نشانات کو Firefox نے پروگرامنگ کی زبان نہیں سمجھا جبکہ IE نے اسے پروگرامنگ کا کوڈ ہی خیال کیا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مجھے کیسے معلوم ہوا؟ ہوا یہ کہ FireFox میں صفحہ دیکھنے سے مجھے بار بار Header کے پاس ! Exclamation کا نشان دکھائی دیتا تھا جبکہ IE میں نہیں۔ سو میں نے اپنا تبدیل شدہ ٹیمپلٹ الگ کاپی کیا اور پھر بلاگر کا اصل ٹیمپلٹ تنصیب کیا۔ اور آخر میں اپنی تبدیلیوں کو ایک ایک کر کے دوبارہ نقل(Copy-Paste) کرتا رہا۔ ہر تبدیلی کرنے کے بعد FireFox میں صفحہ کھول کر دیکھتا۔ پہلی دفعہ تو سارا معاملہ ایک بار پھر گڑبڑ ہو گیا۔ رات کے دو بج رہے تھے اور شانے شل ہو چکے تھے۔ مگر سونے سے پہلے سوچا ایک بار پھر کوشش آزمانی چاہیے۔ اللہ کا نام لے کر پھر شروع کیا اور آخرکار چور کوڈ کو پکڑ ہی لیا۔ یہ کوڈ اس صورت میں < - - - - !> لگایا تھا اور درمیان میں اپنی یاداشت کی واسطے عبارتیں تحریر کی تھیں۔ امید ہے یہاں تحریر کے درمیان ٹائپ کرنے سے گڑبڑ نہیں کرے گا۔ پوسٹ کر کے دیکھتا ہوں۔ ٹیمپلٹ پر آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔ ابھی بنیادی تبدیلیاں کی ہیں اسے مزید بہتر فرصت ملنے پر بناؤں گا۔
12.29.2005
پرخچے
اور ہم نے اپنے بلاگ ٹیمپلیٹ کے اتنے بخیئے اُدھیڑے کے اُس کے پرخچے اُڑ گئے۔ IE میں تو صحیح دکھتا تھا مگر FireFox میں نہیں۔ اغلبا“ کہیں Loop غلط لگا بیٹھا تھا۔ یار لوگوں نے بہت شکایت کی کہ پڑھنا مشکل ہے۔ سو میں نے بھی FireFox کی تنصیب کی اور اپنا صفحہ دیکھا۔ اپنے تیئں بہت شرم آئی بس ایک یہی بات سجھائی، اصل ٹیمپلٹ کو واپس لاؤ۔ دوستوں دشمنوں کی دعائیں لو اور راحت پاؤ۔ سو منادیِ عام ہے کہ دوبارہ اصل ٹیمپلٹ کی تنصیب کی جاتی اور فرصت ملنے پر مابدولت نئے سرے سے اصل ٹیمپلٹ کے پرخچے اُڑائیں گے۔
موجودہ صورتِ حال: ہم پھر کوچہ جاناں میں دشنام طرازی کے مرتکب ہو چکے ہیں اور Firefox میں یہ صفحہ دیکھنے سے یوں لگتا ہے جیسے اس پر کوئی بھوت پھر گیا ہو۔ جائیں تو جائیں کہاں۔
موجودہ صورتِ حال: ہم پھر کوچہ جاناں میں دشنام طرازی کے مرتکب ہو چکے ہیں اور Firefox میں یہ صفحہ دیکھنے سے یوں لگتا ہے جیسے اس پر کوئی بھوت پھر گیا ہو۔ جائیں تو جائیں کہاں۔
12.28.2005
قصہ ایک خودکشی کا
میں اچھا بھلا اسم بامسمٰی تھا لیکن اسد سے ملاقات کے بعد ْجیم جنجوعہْ ہو گیا۔ وہ مجھے ہمیشہ میرے نام سے پکارنے کی بجائے ْج جنجوعہْ کہہ کر بلاتا۔ رفتہ رفتہ میں نے بھی اُسے اسد کے بجائے ْش شیخْ کہہ کر بلانا شروع کر دیا۔ وہ بچارا عشق کا مارا، مجھے عاشقِ صادق سمجھتے ہوئے، اپنی یکطرفہ محبت میں مشورہ لینے آیا تھا۔ لیکن اُسے اپنی یکطرفہ ٹریفک خاصی مہنگی پڑی، مجھ سے مشورہ مانگ کر پھنس گیا۔ ازل سے عاشق کا دشمن عاشق ہی ٹہرا۔ میں بھی کئی دنوں سے ایک عدد عاشقِ صادق کی تلاش میں تھا جس کے ساتھ اپناادھورا عشق یعنی غِم جاناں شیئر (بانٹ) سکوں۔ لہذا میں اس کی مدد کرنے کے بجائے دن رات اپنا رونا روتا، ٹھنڈی آہیں بھرتا، اور اُسکا خون خُشک کئے رکھتا۔ اگرچہ وہ ہر کسی سے یہی رونا روتا رہا کہ مجھ سے دوستی کر کے پچھتا رہا ہے؛ وہ کون سی منحوس گھڑی تھی جب میں ج جنجوعہ سے ملا، تاہم انتہائی مستقل مزاج آدمی نکلا اور بدستور میری آہیں برداشت اور اپنا حال شتاب کرتا رہا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنا غم بھول گیا۔ ایک دن میرے غم جاناں میں بے حد غمگین ہوا اور گلے میں رسی ڈال کر جھول گیا۔میں نے جو پوچھا کہ۔۔۔
-- یہ کیا کرنے لگے ہو!
اطمینان سے بولا:
-- خودکشی!
-- اتنی بھی کیا جلدی ہے۔ میں نے حیرانی سے کہا۔بولا
-- میرے پاس وقت بہت کم ہے، اور صبح کالج بھی جانا ہے۔ اس لیا سوچاکم ازکم فی الوقت خود کشی کر لوں۔
-- لیکن ابھی تو میرے عشق کا ڈراپ سین (اختتام) ہونا باقی ہے۔ میں نے ایک عدد سامع غم کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر بے چارگی سے کہا۔
-- اسی لئے تو خودکشی کر رہا ہوں۔۔۔! مجھ سے تمھارا غم مزید برداشت نہیں ہوتا۔ اس لئے میں نے سوچا ہے کہ آج کی رات تمہاری جگہ میں آتماہتیا کر لوں۔ اُس نے جل کر جواب دیا۔
میں نے اسے بڑی مشکل سے منایا کہ اس پروگرام کو کل تک کیلئے ملتوی کر دے۔ اس پر وہ بخوشی راضی ہو گیا۔ کمبخت مرنا ہی نہیں چاہتا تھا، ڈرامہ کرتا رہا۔
اگلی شام میں نے اُسے یہ مژدہ سُنایا کہ میں ‘مِیم‘ کو بالکل بھلا چکا ہوں کیونکہ مجھے اندازہ ہو چکا ہے کہ اُسے میری کوئی پرواہ نہیں ہے۔ لہذا میں بھی ایسی لڑکی کے فراق میں اپنی جان ہلکان نہیں کر سکتا۔ ہاں اگر وہ اپنے کل والے پروگرام پر عمل درآمد کرنا چاہے تو بصد شوق، میری طرف سے مکمل اجازت ہے۔ پہلے تو اُس نے بُرا سا منہ بنایا پھر بولا؛-- ج جنجوعہ تم چاہتے ہو کہ میں خودکشی نہ کروں، اسی لئے تم نے اپنے عشق کا اختتام کر دیا ہے۔ لہذا مجھے بھی اس منافقانہ ردِعمل کی ضرورت نہیں۔ ہاں کل سے میں نے اپنی محبوبہ ‘نون‘ پر دوبارہ عاشق ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میں اپنا روگ سنا کر تمہارا حال شتاب کروں گا۔ ‘ج جنجوعہ‘ اب تمہاری باری ہے، تم خود کشی کیلئے تیار ہو جاؤ۔
آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا میرا افسانہ یہیں ختم ہو گیا؟ جی نہیں! ترقی پسند تحریک کے متاثرین افسانہ نگار کبھی بھی افسانے کو اُس کے کلائمکس (عروجِ بام) پر ختم نہیں کرتے اور ہمیشہ مٰابعد کے واقعات پر روشنی ڈالتے ہیں تاکہ قاری کو بتا سکیں کہ اس واقعہ کے بعد کوئی قیامت نہیں ٹوٹی اور زندگی اُسی طرح سے رواں دواں ہے۔ لہذا اُن کی اندھی تقلید میں ہم آپ کو یہ ضرور بتائیں گے کہ بعد میں کیا ہوا (آخر ہم بھی بھیڑچال کا شکار ہیں)۔ ‘ش شیخ‘ کو اپنے معاملاتِ عشق میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہو سکی اور میں اپنے عِشق کا اختتام کرنے کے بعد ‘مِیم‘ کی یاد میں پہلے سے بھی زیادہ ٹھنڈی آہیں بھرنے لگا۔ ‘ش شیخ‘ کی مستقل مزاجی مسلسل اعصاب شکنی کی وجہ سے جواب دے گئی۔ اور اُس نے ایک بار پھر خود کشی کے متعلق سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا۔
ابھی تک اس نے اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی نہیں کی، امید ہے وہ میرے مشورے پر آج رات خودکشی کر لے گا کیونکہ بقول اُسکے وقت بہت کم ہے اور کل صبح اُسے اِسلام آباد بھی پہونچنا ہے۔ اور چونکہ وہاں سے واپسی کم از کم ایک ہفتہ بعد متوقعہ ہے، لہذا اِس سعد کام (خود کشی) کے لئے ہفتہ بھر انتظار نہیں کیا جا سکتا۔
اگلی شام میں نے اُسے یہ مژدہ سُنایا کہ میں ‘مِیم‘ کو بالکل بھلا چکا ہوں کیونکہ مجھے اندازہ ہو چکا ہے کہ اُسے میری کوئی پرواہ نہیں ہے۔ لہذا میں بھی ایسی لڑکی کے فراق میں اپنی جان ہلکان نہیں کر سکتا۔ ہاں اگر وہ اپنے کل والے پروگرام پر عمل درآمد کرنا چاہے تو بصد شوق، میری طرف سے مکمل اجازت ہے۔ پہلے تو اُس نے بُرا سا منہ بنایا پھر بولا؛-- ج جنجوعہ تم چاہتے ہو کہ میں خودکشی نہ کروں، اسی لئے تم نے اپنے عشق کا اختتام کر دیا ہے۔ لہذا مجھے بھی اس منافقانہ ردِعمل کی ضرورت نہیں۔ ہاں کل سے میں نے اپنی محبوبہ ‘نون‘ پر دوبارہ عاشق ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میں اپنا روگ سنا کر تمہارا حال شتاب کروں گا۔ ‘ج جنجوعہ‘ اب تمہاری باری ہے، تم خود کشی کیلئے تیار ہو جاؤ۔
آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا میرا افسانہ یہیں ختم ہو گیا؟ جی نہیں! ترقی پسند تحریک کے متاثرین افسانہ نگار کبھی بھی افسانے کو اُس کے کلائمکس (عروجِ بام) پر ختم نہیں کرتے اور ہمیشہ مٰابعد کے واقعات پر روشنی ڈالتے ہیں تاکہ قاری کو بتا سکیں کہ اس واقعہ کے بعد کوئی قیامت نہیں ٹوٹی اور زندگی اُسی طرح سے رواں دواں ہے۔ لہذا اُن کی اندھی تقلید میں ہم آپ کو یہ ضرور بتائیں گے کہ بعد میں کیا ہوا (آخر ہم بھی بھیڑچال کا شکار ہیں)۔ ‘ش شیخ‘ کو اپنے معاملاتِ عشق میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہو سکی اور میں اپنے عِشق کا اختتام کرنے کے بعد ‘مِیم‘ کی یاد میں پہلے سے بھی زیادہ ٹھنڈی آہیں بھرنے لگا۔ ‘ش شیخ‘ کی مستقل مزاجی مسلسل اعصاب شکنی کی وجہ سے جواب دے گئی۔ اور اُس نے ایک بار پھر خود کشی کے متعلق سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا۔
ابھی تک اس نے اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی نہیں کی، امید ہے وہ میرے مشورے پر آج رات خودکشی کر لے گا کیونکہ بقول اُسکے وقت بہت کم ہے اور کل صبح اُسے اِسلام آباد بھی پہونچنا ہے۔ اور چونکہ وہاں سے واپسی کم از کم ایک ہفتہ بعد متوقعہ ہے، لہذا اِس سعد کام (خود کشی) کے لئے ہفتہ بھر انتظار نہیں کیا جا سکتا۔
(یہ مزاحیہ ١٩٩٢ میں لکھا گیا تھا جب میں اور ‘ش شیخ‘ گورنمنٹ کالج لاہور میں زیرِ تعلیم تھے۔ اِس کے بعد سے میں نے ج جنجوعہ کا قلمی نام اپنا لیا۔ اس کا کریڈٹ اسد یعنی ‘ش شیخ‘ کو جاتا ہے۔ معلوم نہیں وہ آجکل کہاں ہے۔ گورنمنٹ کالج سے تحصیل علم کے بعد ایک بار کراچی سے لاہور آتے ہوئے میری ڈائری کراچی کے ہوائی اڈے پر کھو گئی۔ اِسطرح بہت سے پرانے راوینز سے رابط ٹوٹ گیا۔ شیخ صاحب اگر اِسے پڑھیں تو فورا“ رابط کریں انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا)
12.27.2005
Skiing سکینگ
اور جناب ہم نے سکینگ بھی کر ڈالی۔ میرا دوست جمیل تو بہت اچھی Skiing کر لیتا ہے اور اس کی دونوں بیٹیاںاور بیگم تو بہت ہی ماہر ہں۔ جمیل نے اپنی بیگم سے سیکھی تھی۔ سو ہم سب اس کے ساتھ گئے تھے۔ اور میں نے پہلے دن ہی اچھی خاصی Skiing کی۔ میں صرف چند بار لڑکھڑایا اور ایک بار کمر کے بل گرا۔ چونکہ Ski پہنے ہوتے ہیں سو آپ پیٹھ پر گرنے کی بجائے سیدھے کمر پر گرتے ہیں۔ شکر ہے برف کے نیچے کوئی پتھر نہیں تھا وگرنہ بہت بری چوٹ آتی۔ اگلی بار سعدی اور بچوں کو بھی سکھانے کا اراداہ ہے۔ میں نے ابھی Cross Country سیکھنا شروع کی ہے۔ مہارت آنے کے بعد Down Hill شروع کروں گا۔ Down hill مشکل ہوتی ہے۔
میں سعدیہ اور بچے
یاسمین، عمر، نصرین، اور احمد While sledging.
ماریا (Mrs. Jameel)، جمیل اور ج جنجوعہ۔ یہی ایک اکٹھے تصویر تھی مگر کیمرہ ہل گیا
میں سعدیہ اور بچے
یاسمین، عمر، نصرین، اور احمد While sledging.
ماریا (Mrs. Jameel)، جمیل اور ج جنجوعہ۔ یہی ایک اکٹھے تصویر تھی مگر کیمرہ ہل گیا
12.26.2005
راز
اور یہ رہے ابھی تک موصول ہونے والے راز اس بارے میں مزید معلومات کے لئے یہاں کلک کریں
پہلا
پہلا
دوسرا
میرا مقصد کسی کی دل شکنی نہیں۔ اگر راز والے اصحاب کو یہ آرٹ برالگے تو فوراّ مطلع کریں۔ میں معذرت کے ساتھ آرٹ ویب سے اُتار دوں گا۔اگر پسند آئے تو حوصلہ آفزائی فرمائیں اور راز کی باتیں بتائیں۔
سمجھداری
نعمان کی ڈائری کا ایک حقیقی اور اہم کردار غلام فرید ہے۔ جو اپنے نام کی طرح بہت منکسر المزاج ہے۔ کوئی اس سے تعصب برتے تو بھی وہ خاموش رہتا ہے جبکہ نعمان کا خیال ہے کہ غلام فرید کو خاموش نہیں رہنا چاہئے بلکہ جواباََ بحث کرنی چاہئے۔ میں نے سوچا کہ میں غلام فرید کے رویہ پر روشنی ڈالوں۔نعمان کی بات ٹھیک ہے ہم تمام پاکستانی بہت تعصب پسند واقع ہوئے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں غلام فرید بہت سمجھدارانسان ہے اور شاید بہت سے پڑہے لکھوں سے زیادہ عقلمند۔ امریکہ اور باقی طرقی یافتہ ممالک میں بحث کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اگر کس کی بات ناپسند ہو تو بس اتنا کہتے ہیں کہ یہ صرف آپکی رائے ہے اور سب کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ عقل والے اتنی سی بات سے سمجھ جاتے ہیں۔ اردو میں کہتے ہیں عقل والے کے لئے اشارہ کافی ہوتا ہے۔ پنجابی مین کہتے ہیں سیانے کو سینت اور گدھے کو سوٹا۔ اگرچہ پنجابی کی مثل زیادہ جاندار ہے مگر میں آخری حصے سے اختلاف رکھتا ہوں۔ کیونکہ نادان آدمی سے صرف بحث بیکار کا شغل ہے۔ ہاں بحثیت قوم ہمیں اپنا رویہ بدلنے کی ضرورت ہے۔
اور غلام فرید کی یہ بات تو مجھے بہت ہی پسند آئے۔
اتنی دیر میں میرا ایک دوست شہزاد آگیا جو کہ مہاجر ہے۔ اب ہماری دکان میں مجھ سمیت تین سندھی تھے اور ایک غلام فرید۔ شہزاد بھی کہنے لگا کہ پنجابی طاقت کے زور پر ڈیم بنانا چاہتے ہیں۔ غلام فرید نے کہا کہ اگر طاقت کے زور پر بنانا ہوتا تو کب کا بن گیا ہوتا۔ ان لوگوں نے غلام فرید پر ایسے الزام لگائے جیسے پاکستان میں آج تک ہونے والے سارے مظالم کا وہی ذمہ دار ھے۔
12.25.2005
سات سال
آج ہماری شادی کی ساتویں سالگرہ ہے۔ جی ہاں 25 دسمبر، یہ تاریخ سعدیہ نے چنی تھی۔ تاریخ طے کرتے وقت میں نے اس سے پوچھا تو کہنے لگی: ہم نجانے دنیا کے کس کونے میں ہوں، پاکستان اور دنیا کے دوسرے تمام ممالک میں اس تاریخ کو چُھٹی ہوتی ہے لہذا ہم یہ دن آرام سے ایک دوسرے کے ساتھ گزار سکیں گے۔ کیونکہ آج ہر جگہ چھٹی ہوتی ہے لہذا سعدی آج کے دِن خوب مزے مزے کے کھانے بناتی ہے۔ لیکن اِس بار اُسکی ایک دوست طیبہ نے بہت اصرار کیا ہے کہ آج کا ڈنر ہم اُس کی طرف سے کریں۔ اب بچے بڑے ہو رہے ہیں اور سارا دِن تو اُنکے ساتھ ہی مصروفیت میں گزر گیا ہے۔ سوچ رہے ہیں کہ اگر بچوں نے تنگ نہ کیا توآج رات اُنہیں سعدی کی دوست کے پاس چھوڑ کر نئی فلم سِیریِانٰا دیکھنے جائیں گے۔
12.24.2005
آپکے راز اور اعترافات
آپ نے اپنی زندگی میں بہت سی ایسی حرکتیں کی ہوں گی جن پر آپ بعد میں بہت پچھتائے ہوں گے، یا ایسے راز جو آپ کسی سے نہ کہہ سکے ہوں۔ اگر آپ انہیں گمنام رہتے ہوئے دوسروں کو بتانا چاہتے ہیں تو انہیں اس پوسٹ کے تبصرے میں گمنام یعنی انانیمس
(Anonymus)
سیلیکٹ کر کے درج کئجیے۔ بعض دفعہ ایسا کرنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ اردو قارئین کے لئے ہے۔ اردو کے لئے یہ اچھوتا خیال مجھے دو وجوہات کی بنا پر آیا ہے۔
١۔ حال ہی میں قدیر احمد رانا صاحب نے اردو بلاگ پر اپنے بارے میں کچھ اعترافات کئے ہیں۔
٢۔ آجکل امریکہ کے دارلخلافہ سے ملحقہ علاقے جارج ٹاؤن میں “پوسٹ سیکریٹ“ کے عنوان سے ایک آرٹ نمائش جاری ہے۔
Postsecret Art Show from December 15th until January 8th
Wed, Thurs, Fri 6pm-10pm
Sat & Sun 2pm-10pm
Former Georgetown Staples Store, 3307
M Street, NW,
Washington, DC 20007
اِس نمائش میں
فرینک وارن: Frank Warren
کے نام گمنام لوگوں نے اپنے راز اور دکھ سکھ بھیجے ہیں۔ وارن نے انہیں آرٹ کی شکل میں ایک نمائش میں پیش کیا ہے۔ رانا صاحب جیسے لوگ خال خال ہی ملتے ہیں جو کھلے دِل اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ لیکن گمنام طریقے سے اپنے راز اور کمزوریاں بتانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ بعض دفعہ ایسا کرنے سے انسان سچ بول کر اپنی کمزوریوں پر قابو پا لیتا ہے۔
میں نے سوچا کہ کیوں نہ اردو میں بھی کچھ ایسا کام کیا جائے۔ بہت سے راز اخلاق کے دائرے سے باہر بھی ہو سکتے ہیں لہذا براہ کرم اپنے راز لکھتے ہوئے ایک بات کا خیال رہے، کہ بے حیائی سے اجتناب کریں۔ اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ اردو ادب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اپ کسی بات کو بھی استعارے استعمال کرتے ہوئے لکھ سکتے ہیں لہذا احسن طریقے سے اپنے راز دوسروں تک پہنچائیں۔ میں اپ کی تحریروں کا منتظر رہوں گا اور پھر اُنہیں آرٹ کی شکل میں صفحہ اول پر شائع کروں گا۔
اِس نمائش میں
فرینک وارن: Frank Warren
کے نام گمنام لوگوں نے اپنے راز اور دکھ سکھ بھیجے ہیں۔ وارن نے انہیں آرٹ کی شکل میں ایک نمائش میں پیش کیا ہے۔ رانا صاحب جیسے لوگ خال خال ہی ملتے ہیں جو کھلے دِل اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ لیکن گمنام طریقے سے اپنے راز اور کمزوریاں بتانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ بعض دفعہ ایسا کرنے سے انسان سچ بول کر اپنی کمزوریوں پر قابو پا لیتا ہے۔
میں نے سوچا کہ کیوں نہ اردو میں بھی کچھ ایسا کام کیا جائے۔ بہت سے راز اخلاق کے دائرے سے باہر بھی ہو سکتے ہیں لہذا براہ کرم اپنے راز لکھتے ہوئے ایک بات کا خیال رہے، کہ بے حیائی سے اجتناب کریں۔ اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ اردو ادب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اپ کسی بات کو بھی استعارے استعمال کرتے ہوئے لکھ سکتے ہیں لہذا احسن طریقے سے اپنے راز دوسروں تک پہنچائیں۔ میں اپ کی تحریروں کا منتظر رہوں گا اور پھر اُنہیں آرٹ کی شکل میں صفحہ اول پر شائع کروں گا۔
عوامی شادی
اردو ستان پر عزیز احمد صاحب کی خوبصورت نظم عوامی شادی کا آخری بند
دم رخصتی ایک آئی صدا
کرو قراں کے سائے بیٹی بدا
قرآن سر پہ تانے پیادہ چلا
یوں سنت نکاح کا جنازہ چلا
اڑاتے ہیں اپنے ہی سنت کی دھول
اور کہتے ہیں ہم ہیں محب رسول
دم رخصتی ایک آئی صدا
کرو قراں کے سائے بیٹی بدا
قرآن سر پہ تانے پیادہ چلا
یوں سنت نکاح کا جنازہ چلا
اڑاتے ہیں اپنے ہی سنت کی دھول
اور کہتے ہیں ہم ہیں محب رسول
محبت کی ایک نظم
بہت سارے لوگوں نے اِس نظم کو اپنی بلاگز پر اصل حوالہ دیے بغیر لکھا ہے اور بالعموم ابرار الحق سے موسوم کیا ہے۔ اصل میں یہ امجد اسلام امجد کی ایک خوبصورت نظم ہے۔
محبت کی ایک نظم
امجد اسلام امجد
اگر کبھی میری یاد آئے
تو چاند راتوں کی نرم دل گیر روشنی میں
کِسی ستارے کو دیکھ لینا
اگر وہ نخلِ فلک سے اُڑ کر تمھارے قدموں میں آگرے تو
یہ جان لینا، وہ استعارہ تھا میرے دِل کا،
اگر نہ آئے۔۔۔۔
مگر یہ ممکن ہی کو طرح ہے کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو
تو اُس کی دیوارِجاں نہ ٹوٹے
وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے!
اگر کبھی میری یاد آۓ
گریز کرتی ہَوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خشبوؤں میں تُمہیں ملوں گا۔
مُجھے گُلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا
میں اوس قطروں کے آئینوں میں تمہیں مِلوں گا۔
اگر ستاروں میں، اوس قطروں میں، خشبوؤں میں، نہ پاؤ مجھ کو
تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا
مَیں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں مِلوں گا۔
کہیں پہ روشن چراغ دیکھو تو جان لینا
کہ ہر پتنگے کے ساتھ مَیں بھی بِکھر چُکا ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے ان پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا
مَیں خاک بن کر سُمندروں میں سفر کروں گا۔
کِسی نہ دیکھے ہوۓ جزیرے پہ رُک کے تم کو صدائیں دُوں گا
سمندروں کے سَفر پہ نِکلو تو اُس جزیرے پہ بھی اترنا۔
(محبت ایسا دریا ہے۔٢٠٠٤۔پبلشر جہانگیر بُک ڈپو)
اردو کم جاننے والے حضرات کے لئے ذیل میں فرہنگ پیش کر رہا ہوں۔
فرہنگ (Thesarus)
ذیل: نیچے (following)
نرم دل گیر: دل پہ اثر کرنے والی (soft)
نخلِ فلک: آسمان
استعارہ: نشانی (allegory)
اوس: شبنم (dew)
مسافتوں: سفر میں کٹا راستہ (distances)
صدائیں: پکار ( to call aloud)
محبت کی ایک نظم
امجد اسلام امجد
اگر کبھی میری یاد آئے
تو چاند راتوں کی نرم دل گیر روشنی میں
کِسی ستارے کو دیکھ لینا
اگر وہ نخلِ فلک سے اُڑ کر تمھارے قدموں میں آگرے تو
یہ جان لینا، وہ استعارہ تھا میرے دِل کا،
اگر نہ آئے۔۔۔۔
مگر یہ ممکن ہی کو طرح ہے کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو
تو اُس کی دیوارِجاں نہ ٹوٹے
وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے!
اگر کبھی میری یاد آۓ
گریز کرتی ہَوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خشبوؤں میں تُمہیں ملوں گا۔
مُجھے گُلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا
میں اوس قطروں کے آئینوں میں تمہیں مِلوں گا۔
اگر ستاروں میں، اوس قطروں میں، خشبوؤں میں، نہ پاؤ مجھ کو
تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا
مَیں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں مِلوں گا۔
کہیں پہ روشن چراغ دیکھو تو جان لینا
کہ ہر پتنگے کے ساتھ مَیں بھی بِکھر چُکا ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے ان پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا
مَیں خاک بن کر سُمندروں میں سفر کروں گا۔
کِسی نہ دیکھے ہوۓ جزیرے پہ رُک کے تم کو صدائیں دُوں گا
سمندروں کے سَفر پہ نِکلو تو اُس جزیرے پہ بھی اترنا۔
(محبت ایسا دریا ہے۔٢٠٠٤۔پبلشر جہانگیر بُک ڈپو)
اردو کم جاننے والے حضرات کے لئے ذیل میں فرہنگ پیش کر رہا ہوں۔
فرہنگ (Thesarus)
ذیل: نیچے (following)
نرم دل گیر: دل پہ اثر کرنے والی (soft)
نخلِ فلک: آسمان
استعارہ: نشانی (allegory)
اوس: شبنم (dew)
مسافتوں: سفر میں کٹا راستہ (distances)
صدائیں: پکار ( to call aloud)
12.22.2005
کینیڈا سے اردو ادب کے جریدے کا آغاز
یہ خبر آئی فقیر کی ویب سائٹ پر پائی گئی۔ ااگر کسی صاخب کے پاس اس کی مزید تفصیل یا اس خبر میں مندرج حضرات سے رابطے کا پتہ موجود ہو تو براہِ کرم مطلع کریں تآنکہ امریکہ میں موجود اردو ادب کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ فی الوقت اٍس خبر سے معلوم نہیں ہوتاکہ امریکہ میں موجود اردو ادب کے شائقین یہ مجلہ کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔
12.21.2005
12.19.2005
اجازت طلب کرتا ہوں
اجازت طلب کرتا ہوں
یہ نظم عٰلی مُعین کی کتاب َبدن کی خانقاہَ سے متاثر ہو کر لکھی گئی
لرزتے پتے
چھوڑ دیں ساتھ شاخوں کا
وقت تھم جائے
اور رو پڑے
آواز درختوں کی
پھر جب
سنائی نہ دے بات لفظوں کی
تو سمجھ لینا
میں تیری محفل سے
برائے رُخصت اجازت طَلب کرتا ہوں
اور پٹخنے لگیں
موجیںاپنے سر بنا ساحل کے
پھر سُوکھنے لگیں
نَخلس سراب کے
تو سمجھ لینا
میں تیری دنیا سے
بَوقتِ رُخصت اجازت طَلب کرتا ہوں
جب سنائی دے
چاپ بے آواز قدموں کی
اور شور کرنے لگے
آواز بے آوازوں کی
پھر چونک جائے وجود
ناموجود کی آمد سے
تو سمجھ لینا
میں بدن کی خانقاہ سے
بَرائے رُخصت اجازت طَلب کرتا ہوں
15 ستمبر، 1995
15 ستمبر، 1995
12.18.2005
12.17.2005
شیرا تے بدمعاش
جب مابدولت پیدا ہوئے تو کہتے ہیں کہ ہمارا نام رکھنے کا قضیہ کھڑا ہو گیا۔ کسی کو کچھ پسند تھا اور کسی کو کچھ۔ والدہ کو شیر افگن پسند تھا اور باقی سب موجودہ نام پر متفق ہوئے۔ سو اقوام جمہور کی فتح ہوئی اور ہم بے نام سے نامدار ہوئے۔ والدہ نے کچھ پیار سے اور کچھ شیرافگن کی مناسبت سے ’میرا شیر’ کہنا شروع کر دیا۔ اور پھر تو بگڑتے بگڑتے ہمارا نامِ نامی عرفِ عام میں شیرخان، شیرا، شیرو اور نجانے کیا کیا ٹہرا۔ پھر جب ایک فلم شیرا تے بدمعاش کے نام سے بنی تو اکثر بچوں کے مابین کھیل میں نوک جھونک کے دوران شیرا بدمعاش کے نام سے بھی پکارے گئے۔
جب لڑکپن سے جوانی کی حدود میں قدم رکھ رہے تھے، تبھی ایک دور دراز کے عم زاد جو پہلے کبھی نہیں مل پائے تھے بالخصوص ملنے چلے آئے۔ ملنے کے بعد ان کے چہرے سے کربَناک مایوسی جھلک رہی تھی۔ معلوم ہوا کی بعد از سلام و کلام وہ خاصے مایوس ہوئے ہیں۔ بولے میں سمجھا تھا کہ آپ اپنے نام شیرُو کی طرح خوب دہشتناک اور نامی گرامی ہوں گے۔ لیکن آپ کا تو قد کاٹھ ہی اِس نام پر تُہمت ٹہرا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ آپ مکھی تو کُجا کَھٹمل بھی نہیں مار سکتے۔ براہِ کرم اپنا نام بدل لیجئے اور مرَیل یا چوہا رکھ لیجئے۔ بلکہ دونوں کا مجموعہ یعنی مریل چوہا زیادہ بہتر رہے گا۔ تب تو ہمیں بہت ہی غصہ آیا کہ ماں جی نے شیر اَفگن نام کیوں پسند کیا اور پھر سونے پہ سہاگا کہ اصل نام کی بجائے عُرفیت کو کیوں ترجیح دی گئی۔ مزید یہ کہ ہمیں اپنے عم زاد کے تصوراتی شیرے بدمعاش کے ڈھہ جانے پر بھی بہُت افسوس ہوا کہ ہم اُن کے معیار پر پورے نہیں اُتر سکے۔ والدہ بھی بہت پریشان ہوئیں اور منادی عام کی کہ میرے بیٹے کو اِس کے اصل نام سے بلایا جائے۔ لیکن یہ اتنا آسان کام نہ تھا۔ شیرخان، شیرا، اور شیرو کچھ اس بری طرح سے زبانِ خاصِ و عام پر چڑھے تھے کہ لوگوں کو باور کرانے میں پانچ سے چھ سال کا عرصہ لگا۔
پہلی محبت بھی کیا چیز ہوتی ہے۔ محبت کے نشے میں چُور ہو کر اُس لڑکی کو جسے مابدولت بعد میں زمانے کی چیرہ دستیوں کی سبب نہ پاسکے تھے سارے نام جو بدنام ٹہرے تھے بتا بیٹھے۔ اُسے شیرو پسند آیا اور وہ پیار سے شیرو کہنے لگی۔ ہم خوشی سے پھولے نہ سمانے لگے۔ وہ ایک ادا سے شیرو کہتی اور ھم جان وارنے کو تیار ہو جاتے۔ وہ ایک بار بلاتی ہم دس بار جاتے۔ دوستوں نے دشمنوں کا کام کیا اورمنجھلے بھائی کو جا بتایا۔ منجھلے نے ماں جی سے جا کہا۔ ماں جی کو پتہ چلا تو بہت ناراض ہوئیں۔ ہماری عشق مستی پہ ناراضگی تو ظاہر ہے ہونا ہی تھی لیکن نام کے بگاڑ پر اور بھی ناراض ہوئیں کہ گھر والوں سے عُرفیت پہ اُلجھا تھا اور اب نامحرم لڑکیوں کہ ہاتھوں نام کے بگاڑ پر خوش ہوتا ہے۔ بولیں! سچ ہے کہ عشق اندھا ہوتا ہے۔ ہم نے ایک کان سے سنا دوسرے سے اُڑا دیا۔ ہمیں یقین ہے ماں جی کو بہت دکھ ہوا ہو گا۔ ہم نے دل کو تَسلی دی کہ ساس بہو کی چپقلش مشہور ہے سو والدہ شاید اس وجہ سے اتنا شدید ردعمل ظاہر کر رہی ہیں۔ اور یہ بھی کہ وہ اپنے خاندان سے کسی لڑکی کو بہو کے طور پر لانا چاہتی ہیں سو اس قدر ہنگامہ اور ناراضگی قدرتی سی بات ہے، سوچتی ہوں گی کہ بیٹا ہاتھ سے گیا اور ہمیشہ کیلئے پرائی لڑکی کے ہی شیشے میں اُتر گیا ہے۔ ہم نے ڈھٹائی سا کہا محبت کی باتیں آپ کیا جانیں۔ والد صاحب نے والدہ کی تربیت کو قصور وار ٹھرایا۔ ماں جی نے بس اتنا کہا کہ میں بھی عورت ذات ہوں کہے دیتی ہوں کہ عورت ذات کا کوئی بھروسا نھیں۔ اور یہ کہ تمہیں میری باتیں یاد آئیں گی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم شاید بہت ہی ناہنجار اور بے ادب واقع ہوئے ہیں جو ماں جی کو ناحق دقِ کیا اور بےادبی سے کلام کرتے رہے۔ یہ بات نہیں ہے۔ ماں جی سے شروع سے ہی دوستوں کی طرح سے بات ہوتی ہے اور اُن سے ہر بات کہہ لیتے ہیں۔ شاید اُنھوں نے خود سے ہی ہمارے ساتھ ایسا دوستی کا سلوک کیا کہ ہم اُن سے کوئی بات نہ چُھپا سکیں۔
آج کئی سال پہلے کی باتیں سوچتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے ماں جی ٹھیک ہی کہتی تھیں۔ ہم اس مہ جبیں کو کب کا کھو چکے ہیں اور اُس کی یادوں کے خزینے کی جگہ غمِ روزگار نے لے لی ہے۔ ابھی بھی پرانے جاننے والے خَال خَال شیرو کے نام سے پکار دیتے ہیں لیکن اب چونکے لڑکپن کے دن گذر گئے ہیں سو ہم بھی برا نہیں مانتے۔ ماں جی کبھی کبھی طنزاً اُس لڑکی کا قصہ یاد دلا دیتی ہیں اور ہمارے والد مرحوم کو یاد کر کے فرماتی ہیں کہ مرحوم ٹھیک کہتے تھے، میری ڈھیل نے تم لوگوں کو خراب کیا تھا۔ ہم ہنس کر ٹال دیتے ہیں اور اُن کی گود میں پوتوں کو ڈال دیتے ہیں۔ لیکن سچ جانیئے دل میں بہت دکھ ہوتا ہے کہ ماں جی کو ناحق دِق کرتے رہے۔
12.14.2005
زُبانِ شِیرٰیں
اردو کو زُبانِ شِیرٰیں بھی کہا جاتا ہے۔ آج سے یہ صفحہ اردو کے لئے مختص کر رہا ہوں۔ یہاں پر میں اپنی تحریروں کو پوسٹ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ کچھ تحاریر کے صرف اقتباس پیش کئے جائیں گے۔ میرے لکھنے کے شوق میں مندرجہ ذیل اصناف شامل ہیں۔ انشائیہ، افسانہ، ڈرامہ، سفرنامہ، آپ بیتی، خاکہ، سماجی و سیاسی مضامین، تصوف کے مضامین، اور بالخصوص نثری نظم۔ آپ کی آرا کا انتظار رہے گا۔
Here I will post some of my urdu writings. The gener includes 'Inshiya, Afsana, Drama, Parody, Travelouge, Biographies, Sketches, and Free Verse Poetry (Nasaree Nazam).'