اُردو ہے جِس کا نام ہم ہی جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زُباں کی ہے

12.28.2005

قصہ ایک خودکشی کا

میں اچھا بھلا اسم بامسمٰی تھا لیکن اسد سے ملاقات کے بعد ْجیم جنجوعہْ ہو گیا۔ وہ مجھے ہمیشہ میرے نام سے پکارنے کی بجائے ْج جنجوعہْ کہہ کر بلاتا۔ رفتہ رفتہ میں نے بھی اُسے اسد کے بجائے ْش شیخْ کہہ کر بلانا شروع کر دیا۔ وہ بچارا عشق کا مارا، مجھے عاشقِ صادق سمجھتے ہوئے، اپنی یکطرفہ محبت میں مشورہ لینے آیا تھا۔ لیکن اُسے اپنی یکطرفہ ٹریفک خاصی مہنگی پڑی، مجھ سے مشورہ مانگ کر پھنس گیا۔ ازل سے عاشق کا دشمن عاشق ہی ٹہرا۔ میں بھی کئی دنوں سے ایک عدد عاشقِ صادق کی تلاش میں تھا جس کے ساتھ اپناادھورا عشق یعنی غِم جاناں شیئر (بانٹ) سکوں۔ لہذا میں اس کی مدد کرنے کے بجائے دن رات اپنا رونا روتا، ٹھنڈی آہیں بھرتا، اور اُسکا خون خُشک کئے رکھتا۔ اگرچہ وہ ہر کسی سے یہی رونا روتا رہا کہ مجھ سے دوستی کر کے پچھتا رہا ہے؛ وہ کون سی منحوس گھڑی تھی جب میں ج جنجوعہ سے ملا، تاہم انتہائی مستقل مزاج آدمی نکلا اور بدستور میری آہیں برداشت اور اپنا حال شتاب کرتا رہا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنا غم بھول گیا۔ ایک دن میرے غم جاناں میں بے حد غمگین ہوا اور گلے میں رسی ڈال کر جھول گیا۔میں نے جو پوچھا کہ۔۔۔
-- یہ کیا کرنے لگے ہو!
اطمینان سے بولا:
-- خودکشی!
-- اتنی بھی کیا جلدی ہے۔ میں نے حیرانی سے کہا۔بولا
-- میرے پاس وقت بہت کم ہے، اور صبح کالج بھی جانا ہے۔ اس لیا سوچاکم ازکم فی الوقت خود کشی کر لوں۔
-- لیکن ابھی تو میرے عشق کا ڈراپ سین (اختتام) ہونا باقی ہے۔ میں نے ایک عدد سامع غم کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر بے چارگی سے کہا۔
-- اسی لئے تو خودکشی کر رہا ہوں۔۔۔! مجھ سے تمھارا غم مزید برداشت نہیں ہوتا۔ اس لئے میں نے سوچا ہے کہ آج کی رات تمہاری جگہ میں آتماہتیا کر لوں۔ اُس نے جل کر جواب دیا۔
میں نے اسے بڑی مشکل سے منایا کہ اس پروگرام کو کل تک کیلئے ملتوی کر دے۔ اس پر وہ بخوشی راضی ہو گیا۔ کمبخت مرنا ہی نہیں چاہتا تھا، ڈرامہ کرتا رہا۔
اگلی شام میں نے اُسے یہ مژدہ سُنایا کہ میں ‘مِیم‘ کو بالکل بھلا چکا ہوں کیونکہ مجھے اندازہ ہو چکا ہے کہ اُسے میری کوئی پرواہ نہیں ہے۔ لہذا میں بھی ایسی لڑکی کے فراق میں اپنی جان ہلکان نہیں کر سکتا۔ ہاں اگر وہ اپنے کل والے پروگرام پر عمل درآمد کرنا چاہے تو بصد شوق، میری طرف سے مکمل اجازت ہے۔ پہلے تو اُس نے بُرا سا منہ بنایا پھر بولا؛-- ج جنجوعہ تم چاہتے ہو کہ میں خودکشی نہ کروں، اسی لئے تم نے اپنے عشق کا اختتام کر دیا ہے۔ لہذا مجھے بھی اس منافقانہ ردِعمل کی ضرورت نہیں۔ ہاں کل سے میں نے اپنی محبوبہ ‘نون‘ پر دوبارہ عاشق ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میں اپنا روگ سنا کر تمہارا حال شتاب کروں گا۔ ‘ج جنجوعہ‘ اب تمہاری باری ہے، تم خود کشی کیلئے تیار ہو جاؤ۔
آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا میرا افسانہ یہیں ختم ہو گیا؟ جی نہیں! ترقی پسند تحریک کے متاثرین افسانہ نگار کبھی بھی افسانے کو اُس کے کلائمکس (عروجِ بام) پر ختم نہیں کرتے اور ہمیشہ مٰابعد کے واقعات پر روشنی ڈالتے ہیں تاکہ قاری کو بتا سکیں کہ اس واقعہ کے بعد کوئی قیامت نہیں ٹوٹی اور زندگی اُسی طرح سے رواں دواں ہے۔ لہذا اُن کی اندھی تقلید میں ہم آپ کو یہ ضرور بتائیں گے کہ بعد میں کیا ہوا (آخر ہم بھی بھیڑچال کا شکار ہیں)۔ ‘ش شیخ‘ کو اپنے معاملاتِ عشق میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہو سکی اور میں اپنے عِشق کا اختتام کرنے کے بعد ‘مِیم‘ کی یاد میں پہلے سے بھی زیادہ ٹھنڈی آہیں بھرنے لگا۔ ‘ش شیخ‘ کی مستقل مزاجی مسلسل اعصاب شکنی کی وجہ سے جواب دے گئی۔ اور اُس نے ایک بار پھر خود کشی کے متعلق سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا۔
ابھی تک اس نے اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی نہیں کی، امید ہے وہ میرے مشورے پر آج رات خودکشی کر لے گا کیونکہ بقول اُسکے وقت بہت کم ہے اور کل صبح اُسے اِسلام آباد بھی پہونچنا ہے۔ اور چونکہ وہاں سے واپسی کم از کم ایک ہفتہ بعد متوقعہ ہے، لہذا اِس سعد کام (خود کشی) کے لئے ہفتہ بھر انتظار نہیں کیا جا سکتا۔

(یہ مزاحیہ ١٩٩٢ میں لکھا گیا تھا جب میں اور ‘ش شیخ‘ گورنمنٹ کالج لاہور میں زیرِ تعلیم تھے۔ اِس کے بعد سے میں نے ج جنجوعہ کا قلمی نام اپنا لیا۔ اس کا کریڈٹ اسد یعنی ‘ش شیخ‘ کو جاتا ہے۔ معلوم نہیں وہ آجکل کہاں ہے۔ گورنمنٹ کالج سے تحصیل علم کے بعد ایک بار کراچی سے لاہور آتے ہوئے میری ڈائری کراچی کے ہوائی اڈے پر کھو گئی۔ اِسطرح بہت سے پرانے راوینز سے رابط ٹوٹ گیا۔ شیخ صاحب اگر اِسے پڑھیں تو فورا“ رابط کریں انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا)

کچھ باتیں محسنوں اور دل جلوں کی:تعداد4

Blogger افتخار اجمل بھوپالنے کہا...بتاریخ و بوقت12/28/2005 11:02 PM

میں نے افسانے بہت کم پڑھے ہیں ۔ میرے خیال میں افسانے صرف تین چار قسم کے ہوتے ہیں اسلئے آدھی درجن پڑھ لئے جائیں تو کافی ہوتے ہیں

 
Anonymous Anonymousنے کہا...بتاریخ و بوقت12/29/2005 12:58 AM

اس تحریر میں آپ کو افسانے سے زیادہ طنز و مزاح کا عنصر نظر آئے گا۔ اور حقیقت میں یہ مزاح میں شمار ہوتا ہے۔ اگر آپ نیچے آخر میں اندراجی عبارت دیکھیں تو میں نے اسے مزاح کی صنف میں شمار کیا ہے۔ ترقی پسندوں کا افسانے کے حوالے سے تذکرہ خالصتا" حالات اور واقعات کا مزاح اجاگر کرنے کے لئے ہے نہ کہ اِس تحریر کو افسانہ قرار دینے کے لئے۔ معذرت چاہتا ہوں اگر آپ اس میں افسانے کے تذکرہ کے سبب اسے افسانہ سمجھ بیٹھے اور مزاح کو نہ پا سکے۔ وگرنہ افسانہ کے دوران کبھی بھی نہیں لکھا جاتا کہ یہ افسانہ ہے۔

 
Blogger Shoiab Safdar Ghummanنے کہا...بتاریخ و بوقت12/29/2005 11:36 AM

اچھا لکھ لیتے ہیں آپ۔۔۔۔

 
Blogger E Mullah الیکٹرونک مُلانے کہا...بتاریخ و بوقت12/29/2005 1:22 PM

شکریہ

 

Post a Comment

صفحہ اول کو۔۔: Home <<