اُردو ہے جِس کا نام ہم ہی جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زُباں کی ہے

12.24.2005

محبت کی ایک نظم

بہت سارے لوگوں نے اِس نظم کو اپنی بلاگز پر اصل حوالہ دیے بغیر لکھا ہے اور بالعموم ابرار الحق سے موسوم کیا ہے۔ اصل میں یہ امجد اسلام امجد کی ایک خوبصورت نظم ہے۔
محبت کی ایک نظم
امجد اسلام امجد

اگر کبھی میری یاد آئے
تو چاند راتوں کی نرم دل گیر روشنی میں
کِسی ستارے کو دیکھ لینا
اگر وہ نخلِ فلک سے اُڑ کر تمھارے قدموں میں آگرے تو
یہ جان لینا، وہ استعارہ تھا میرے دِل کا،
اگر نہ آئے۔۔۔۔
مگر یہ ممکن ہی کو طرح ہے کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو
تو اُس کی دیوارِجاں نہ ٹوٹے
وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے!

اگر کبھی میری یاد آۓ
گریز کرتی ہَوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خشبوؤں میں تُمہیں ملوں گا۔
مُجھے گُلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا
میں اوس قطروں کے آئینوں میں تمہیں مِلوں گا۔

اگر ستاروں میں، اوس قطروں میں، خشبوؤں میں، نہ پاؤ مجھ کو
تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا
مَیں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں مِلوں گا۔
کہیں پہ روشن چراغ دیکھو تو جان لینا
کہ ہر پتنگے کے ساتھ مَیں بھی بِکھر چُکا ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے ان پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا
مَیں خاک بن کر سُمندروں میں سفر کروں گا۔
کِسی نہ دیکھے ہوۓ جزیرے پہ رُک کے تم کو صدائیں دُوں گا
سمندروں کے سَفر پہ نِکلو تو اُس جزیرے پہ بھی اترنا۔

(محبت ایسا دریا ہے۔٢٠٠٤۔پبلشر جہانگیر بُک ڈپو)

اردو کم جاننے والے حضرات کے لئے ذیل میں فرہنگ پیش کر رہا ہوں۔
فرہنگ (Thesarus)
ذیل: نیچے (following)
نرم دل گیر: دل پہ اثر کرنے والی (soft)
نخلِ فلک: آسمان
استعارہ: نشانی (allegory)
اوس: شبنم (dew)
مسافتوں: سفر میں کٹا راستہ (distances)
صدائیں: پکار ( to call aloud)

کچھ باتیں محسنوں اور دل جلوں کی:تعداد0

Post a Comment

صفحہ اول کو۔۔: Home <<