اُردو ہے جِس کا نام ہم ہی جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زُباں کی ہے

12.17.2005

شیرا تے بدمعاش

جب مابدولت پیدا ہوئے تو کہتے ہیں کہ ہمارا نام رکھنے کا قضیہ کھڑا ہو گیا۔ کسی کو کچھ پسند تھا اور کسی کو کچھ۔ والدہ کو شیر افگن پسند تھا اور باقی سب موجودہ نام پر متفق ہوئے۔ سو اقوام جمہور کی فتح ہوئی اور ہم بے نام سے نامدار ہوئے۔ والدہ نے کچھ پیار سے اور کچھ شیرافگن کی مناسبت سے ’میرا شیر’ کہنا شروع کر دیا۔ اور پھر تو بگڑتے بگڑتے ہمارا نامِ نامی عرفِ عام میں شیرخان، شیرا، شیرو اور نجانے کیا کیا ٹہرا۔ پھر جب ایک فلم شیرا تے بدمعاش کے نام سے بنی تو اکثر بچوں کے مابین کھیل میں نوک جھونک کے دوران شیرا بدمعاش کے نام سے بھی پکارے گئے۔
جب لڑکپن سے جوانی کی حدود میں قدم رکھ رہے تھے، تبھی ایک دور دراز کے عم زاد جو پہلے کبھی نہیں مل پائے تھے بالخصوص ملنے چلے آئے۔ ملنے کے بعد ان کے چہرے سے کربَناک مایوسی جھلک رہی تھی۔ معلوم ہوا کی بعد از سلام و کلام وہ خاصے مایوس ہوئے ہیں۔ بولے میں سمجھا تھا کہ آپ اپنے نام شیرُو کی طرح خوب دہشتناک اور نامی گرامی ہوں گے۔ لیکن آپ کا تو قد کاٹھ ہی اِس نام پر تُہمت ٹہرا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ آپ مکھی تو کُجا کَھٹمل بھی نہیں مار سکتے۔ براہِ کرم اپنا نام بدل لیجئے اور مرَیل یا چوہا رکھ لیجئے۔ بلکہ دونوں کا مجموعہ یعنی مریل چوہا زیادہ بہتر رہے گا۔ تب تو ہمیں بہت ہی غصہ آیا کہ ماں جی نے شیر اَفگن نام کیوں پسند کیا اور پھر سونے پہ سہاگا کہ اصل نام کی بجائے عُرفیت کو کیوں ترجیح دی گئی۔ مزید یہ کہ ہمیں اپنے عم زاد کے تصوراتی شیرے بدمعاش کے ڈھہ جانے پر بھی بہُت افسوس ہوا کہ ہم اُن کے معیار پر پورے نہیں اُتر سکے۔ والدہ بھی بہت پریشان ہوئیں اور منادی عام کی کہ میرے بیٹے کو اِس کے اصل نام سے بلایا جائے۔ لیکن یہ اتنا آسان کام نہ تھا۔ شیرخان، شیرا، اور شیرو کچھ اس بری طرح سے زبانِ خاصِ و عام پر چڑھے تھے کہ لوگوں کو باور کرانے میں پانچ سے چھ سال کا عرصہ لگا۔

پہلی محبت بھی کیا چیز ہوتی ہے۔ محبت کے نشے میں چُور ہو کر اُس لڑکی کو جسے مابدولت بعد میں زمانے کی چیرہ دستیوں کی سبب نہ پاسکے تھے سارے نام جو بدنام ٹہرے تھے بتا بیٹھے۔ اُسے شیرو پسند آیا اور وہ پیار سے شیرو کہنے لگی۔ ہم خوشی سے پھولے نہ سمانے لگے۔ وہ ایک ادا سے شیرو کہتی اور ھم جان وارنے کو تیار ہو جاتے۔ وہ ایک بار بلاتی ہم دس بار جاتے۔ دوستوں نے دشمنوں کا کام کیا اورمنجھلے بھائی کو جا بتایا۔ منجھلے نے ماں جی سے جا کہا۔ ماں جی کو پتہ چلا تو بہت ناراض ہوئیں۔ ہماری عشق مستی پہ ناراضگی تو ظاہر ہے ہونا ہی تھی لیکن نام کے بگاڑ پر اور بھی ناراض ہوئیں کہ گھر والوں سے عُرفیت پہ اُلجھا تھا اور اب نامحرم لڑکیوں کہ ہاتھوں نام کے بگاڑ پر خوش ہوتا ہے۔ بولیں! سچ ہے کہ عشق اندھا ہوتا ہے۔ ہم نے ایک کان سے سنا دوسرے سے اُڑا دیا۔ ہمیں یقین ہے ماں جی کو بہت دکھ ہوا ہو گا۔ ہم نے دل کو تَسلی دی کہ ساس بہو کی چپقلش مشہور ہے سو والدہ شاید اس وجہ سے اتنا شدید ردعمل ظاہر کر رہی ہیں۔ اور یہ بھی کہ وہ اپنے خاندان سے کسی لڑکی کو بہو کے طور پر لانا چاہتی ہیں سو اس قدر ہنگامہ اور ناراضگی قدرتی سی بات ہے، سوچتی ہوں گی کہ بیٹا ہاتھ سے گیا اور ہمیشہ کیلئے پرائی لڑکی کے ہی شیشے میں اُتر گیا ہے۔ ہم نے ڈھٹائی سا کہا محبت کی باتیں آپ کیا جانیں۔ والد صاحب نے والدہ کی تربیت کو قصور وار ٹھرایا۔ ماں جی نے بس اتنا کہا کہ میں بھی عورت ذات ہوں کہے دیتی ہوں کہ عورت ذات کا کوئی بھروسا نھیں۔ اور یہ کہ تمہیں میری باتیں یاد آئیں گی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم شاید بہت ہی ناہنجار اور بے ادب واقع ہوئے ہیں جو ماں جی کو ناحق دقِ کیا اور بےادبی سے کلام کرتے رہے۔ یہ بات نہیں ہے۔ ماں جی سے شروع سے ہی دوستوں کی طرح سے بات ہوتی ہے اور اُن سے ہر بات کہہ لیتے ہیں۔ شاید اُنھوں نے خود سے ہی ہمارے ساتھ ایسا دوستی کا سلوک کیا کہ ہم اُن سے کوئی بات نہ چُھپا سکیں۔
آج کئی سال پہلے کی باتیں سوچتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے ماں جی ٹھیک ہی کہتی تھیں۔ ہم اس مہ جبیں کو کب کا کھو چکے ہیں اور اُس کی یادوں کے خزینے کی جگہ غمِ روزگار نے لے لی ہے۔ ابھی بھی پرانے جاننے والے خَال خَال شیرو کے نام سے پکار دیتے ہیں لیکن اب چونکے لڑکپن کے دن گذر گئے ہیں سو ہم بھی برا نہیں مانتے۔ ماں جی کبھی کبھی طنزاً اُس لڑکی کا قصہ یاد دلا دیتی ہیں اور ہمارے والد مرحوم کو یاد کر کے فرماتی ہیں کہ مرحوم ٹھیک کہتے تھے، میری ڈھیل نے تم لوگوں کو خراب کیا تھا۔ ہم ہنس کر ٹال دیتے ہیں اور اُن کی گود میں پوتوں کو ڈال دیتے ہیں۔ لیکن سچ جانیئے دل میں بہت دکھ ہوتا ہے کہ ماں جی کو ناحق دِق کرتے رہے۔

کچھ باتیں محسنوں اور دل جلوں کی:تعداد0

Post a Comment

صفحہ اول کو۔۔: Home <<