اُردو ہے جِس کا نام ہم ہی جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زُباں کی ہے

12.19.2005

اجازت طلب کرتا ہوں


اجازت طلب کرتا ہوں

یہ نظم عٰلی مُعین کی کتاب َبدن کی خانقاہَ سے متاثر ہو کر لکھی گئی

لرزتے پتے
چھوڑ دیں ساتھ شاخوں کا
وقت تھم جائے
اور رو پڑے
آواز درختوں کی
پھر جب
سنائی نہ دے بات لفظوں کی
تو سمجھ لینا
میں تیری محفل سے
برائے رُخصت اجازت طَلب کرتا ہوں
اور پٹخنے لگیں
موجیںاپنے سر بنا ساحل کے
پھر سُوکھنے لگیں
نَخلس سراب کے
تو سمجھ لینا
میں تیری دنیا سے
بَوقتِ رُخصت اجازت طَلب کرتا ہوں
جب سنائی دے
چاپ بے آواز قدموں کی
اور شور کرنے لگے
آواز بے آوازوں کی
پھر چونک جائے وجود
ناموجود کی آمد سے
تو سمجھ لینا
میں بدن کی خانقاہ سے
بَرائے رُخصت اجازت طَلب کرتا ہوں

15 ستمبر، 1995

کچھ باتیں محسنوں اور دل جلوں کی:تعداد1

Blogger Viksنے کہا...بتاریخ و بوقت12/26/2005 2:47 PM

Nice, I like it! :-)

 

Post a Comment

صفحہ اول کو۔۔: Home <<