اُردو ہے جِس کا نام ہم ہی جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زُباں کی ہے

3.29.2007

یہ مُلاؤں کی بستی ہے

یہ مُلاؤں کی بستی ہے
جسِے چاہیں کہدیں کافر ہے
جسِے چاہیں کہدیں مُرتد ہے
یہ بنِا جَرح اور بِنِا گواہی
جسِے چاہیں کریں سَنگسار
مُلاؤں کی اِس بستی میں
کوئی لال ہے، کوئی پیلی ہے
ہے کالی اور کوئی نیلی ہے
جو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہے
وہ کل نہیں بس آج بنی ہے
اس بستی کی ہر نُکڑ پے
ہے بَارِ زندگی گراں، اور
موت کی بازی سستی ہے
یہ مُلاؤں کی بستی ہے
مارچ ٢٩، ٢٠٠٧

مزید پڑھئے!

3.24.2007

فیصلہ


لب پر مُہر لگانے سے پہلے
ذرا میرا جُرم بتاؤ کیا ہے
ہاں سولی پہ چڑھ جاؤں گا
گلے ہنس کر دار لگاؤں گا
فیصلہ بتا دو مُجھہ کو تُم
کس کی گواہی پر مبنی ہے
٢٤ مارچ ٢٠٠٧

مزید پڑھئے!

3.17.2007

نعرہء حق

بہت عرصے بعد جذبوں کو زباں دی ہے وہ بھی فیض کی یاد میں۔ آجکل فیض بہت یاد آئے اور آپ اِس کی وجہ پاکستان کے حالات کے تناظر میں اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہیں کہ آخر کار ہم سے خاموش نہ رہا گیا۔

نعرہء حق
جیم جنجوعہ


کیا ردیف و قافیہ
کیا آدابِ نظم و نثر
کیا اوزان اور کیا بحر
ھو کیسے پابندیء سُخن
سیاہ دورِ غلامی میں
چھن جاتی ہے سَمع و بَصر


وہ خاکی ہیں یا آہنی ہیں
کیا غرض ہمیں تجرید سے
ہم کو تو بس غرض ہے
عہدِ وفا کی تجدید سے

یہ آدھ کِھلی جمھوریت
اور سیاستِ دیر و حرم
زندہ قوموں کے زوال کی
کر رہی ہے داستان رقم

ہے جو مشروط آزادی
دانشوری کی موت ہے
خداوند کے عذاب کی
یہ ایک صورت اور ہے

لگا کے ہونٹوں پہ قدغن
وہ سمجھے ہیں سکوت ہے
محکوموں کی آہوں سے
جل اٹھتے ہیں چراغِ سَحر

لگا کے ہر سوچ پر پہرہ
سمجھتے ہیں کہ جمود ہے
یہی دھر کے فراعینوں کا
رہا ھر دور میں دستور ہے

سوچتے ہیں دبا لیں گے
وہ طاقتِ جمہور کو
اور پسِ زِنداں ڈالیں گے
اب ھر اِک بے قصور کو

ہے حکم ربِ جلالی کا
اُترے گا طوق غلامی کا
اور اب دور سُنہرا آئے گا
محکوموں کی شاہی کا

"ہم اہلِ صفا، مردودِ حرم"
بس چاہتے ہیں انصاف ہو
تجھ سے کہتے ہیں اے رب
گھر جمھوریت کا آباد ہو

اے رب ابرِ کرم کا برسادے
تو ہی اپنا جلوہ دکھلا دے
جو ہاتھ اُٹھے تیری خلقت پر
اُسے نشاں عبرت کا بنا دے

گَر نہ ملی جو برحق ہے
اذانِ جبریل و پیمبر ہے
پڑھ لو نوشتہء دیوار کو
ہم چھین کے لیں گے آزادی

مارچ17, 2007

مزید پڑھئے!